26 ستمبر 2025 - 17:07
دشمن اس طرح ہم پر اور ہمارے خیالات پر تسلط جماتا ہے

خداوند متعال نے سورہ مبارکہ نحل میں دشمنوں کی حقیقی تصویر کشی کی ہے کہ وہ کس طرح حقائق کا انکار کرتے ہیں اور فریب، جعل سازی، جھوٹ اور حقائق کی تحریف (یعنی مسخ کرنے) کے ذریعے معاشرے کو راہِ ہدایت کے راستے سے روکتے ہیں اور اس پر تسلط جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ نحل کی آیات 55 تا 64 میں خدائے متعال مشرکین اور حق و حقیقت کے دشمنوں کے کچھ رویے بیان کرتا ہے۔ ان آیات میں قرآن نے توحید کے دشمنوں کا اصل چہرکا خاکہ پیش کیا ہے اور دکھایا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کی نعمتوں کے سامنے حقیقت کا انکار کرتے ہیں، کفرانِ نعمت اور ناشکری کا ارتکاب کرتے ہیں، اور جھوٹ اور حقائق میں تحریف کرکے، معاشرے کو راہ ہدایت سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان آیات کو علم 'دشمن شناسی' کے نقطہ نظر سے پرکھنا، ہر دور میں مسلمانوں کے لئے چھپے اور کھلے دشمنوں کی شناخت کا ایک عظیم درس ہے۔

کفرانِ نعمت؛ حق و حقیقت کی جڑ

خدائے متعال آیت 55 میں ارشاد فرماتا ہے:

"لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ؛

[وہ شرک کرنے لگتے ہیں] تاکہ وہ کفر انِ نعمت [اور ناشکری] کریں، اس پر جو ہم نے انہیں عطا کیا تو فائدہ اٹھا لو، عنقریب تم کو (اس کا انجام) معلوم ہو جائے گا."

یعنی وہ ان نعمتوں کے بدلے ناشکری کرتے ہیں جو خدا نے ان کو عطا کی ہیں۔ اس نکتے سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کی دشمنی اکثر ناشکری اور غفلت سے شروع ہوتی ہے۔ جو شخص خدا کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا وہ شکرگزاری کے بجائے ناشکری اور مخالفت کی راہ پر چلا جاتا ہے اور یہ ناشکری اسے حق کے خلاف کھڑا کر دیتی ہے۔ آج کے عالمی ماحول میں بھی اسلام کے دشمن [عیسائی، یہودی، مشرک یا حتی مسلمان کی شکل میں] اللہ کی نعمتوں سے مالامال ہیں لیکن ان ہی نعمتوں کی ناشکری کرکے، انہیں ظلم اور استکبار، قابضوں، غاصبوں اور سامراجیوں کی خدمت میں بروئے کار لاتے ہیں۔

خوشحالی کے وقت شرک کی طرف واپسی

سورہ نحل کی آیات 56 اور 57 میں ارشاد باری ہے:

"وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ * وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ وَلَهُمْ مَا يَشْتَهُونَ؛

اور اس میں، جو ہم نے انہیں رزق عطا کیا، حصہ قرار دیتے ہیں  ان [معبودوں] کے لئے جنہیں وہ جانتے نہیں ہیں، خدا کی قسم! ضرور تم سے بازپرس ہو گی اس کی جو تم گھڑ لیتے ہو * اور وہ اللہ کے لئے لڑکیاں قرار دیتے ہیں، پاک ہے اس کی ذات، اور خود اپنے لئے [قرار دیتے ہیں] وہ جس کے وہ خواہشمند ہیں۔"

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کچھ الٰہی نعمتوں کو بتوں سے منسوب کیا کرتے  تھے اور اللہ کے لئے بیٹیوں کے قائل تھے جبکہ وہ اپنے لئے بیٹے چاہتے تھے۔ یہ غیر منصفانہ تقسیم ان کی انتہائی دشمنی کو ظاہر کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن اپنے باطل عقائد کو درست ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ پر بھی نا روا الزامات لگاتے تھے۔ یہ طرز عمل آج مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے، جہاں دین کے دشمن الٰہی مفاہیم اور تصورات کو 'مسخ کرکے' 'اپنے مفادات کے حق میں' 'ضبط' کر دیتے ہیں۔

غیرت اور تعصب کی آڑ میں چھپی ہوئی دشمنی

آیات 58 اور 59 میں ارشاد ہوتا ہے:

"وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ * يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ؛

اور جب ان میں کسی ایک کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ کالا پڑ جاتا ہے اور وہ غصے [اور دکھ] کو برداشت کر رہا ہوتا ہے * وہ لوگوں کی نظروں سے چھپ جاتا ہے اس خوشخبری کی برائی سے جو اسے دی گئی ہے۔ اب کیا وہ اسے حقارت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں چھپا دے گا، آگاہ رہو کہ کتنا برا ہے وہ جو یہ فیصلہ کرتے ہیں۔"

ان آیات کریمہ میں جاہلیت کا ایک منظر بیان کیا گیا ہے: انہیں لڑکی کی پیدائش کی خبر پہنچتی تھی تو ان کے منہ کالے پڑ جاتے تھے اور غم و غصے کی شنت سے، چھپ جاتے تھے۔ وہ لڑکیوں کو یا تو تو زندہ در گور کر دیتے تھے یا پھر 'ذلت کے ساتھ' رکھتے تھے۔ یہ طرز عمل 'انسانی فطرت سے دشمنی' کی علامت ہے۔ درحقیقت دشمن غیرت اور ریت روایت کے لبادے میں انسانی اقدار کو تباہ کر دیتا ہے۔ آج بھی اسلام کے دشمن بظاہر خوبصورت نعروں کے ساتھ دینی اور اخلاقی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں؛ جبکہ وہ آزادی اور انسانی حقوق کے دفاع کا دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں۔

جھوٹ حقیقت کے انکار کے لئے

سورہ نحل کی آیت 60 میں ارشاد خداوندی ہے:

"لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ؛

بری مثال ان لوگوں کی ہے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے؛ جبکہ اللہ، کے لئے سب سے برتر صفات ہیں، وہی تو سب پر غالب اور نہایت حکمت والا ہے۔"

یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کی مثال بہت بری اور بد نما ہے۔ قرآن بتلاتا ہے کہ دشمن آخرت اور غیب کی سچائیوں کو جھٹلانے کے لئے جھوٹ اور تمسخر کا سہارا لیتے ہیں۔ دشمنوں کی یہ خصوصیت آج بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ میڈیا، پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے ذریعے سچائی کو الٹ پلٹ دیتے ہیں اور مسخ کر دیتے ہیں۔

سختیوں میں بے بسی کا اعتراف

خدائے متعال سورہ نحل کی آیات 61 اور 62 میں ارشاد فرماتا ہے:

"وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ * وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا يَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَى لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُمْ مُفْرَطُونَ؛

اگر کہیں اللہ لوگوں کو اُن کی ظلم و زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کر تا تو روئے زمین پر کسی بھی چلنے پھرنے والے کو نہ چھوڑتا لیکن وہ سب کو ایک وقت مقرر تک ڈھیل دیتا ہے، پھر جب وہ وقت آ جاتا ہے تو تو پھر ایک گھڑی نہ پیچھے ہوں گے اور نہ آگے بڑھیں گے * آج وہ ان چیزوں کو اللہ کے لیے تجویز کر تے ہیں جو وہ خود [اپنے لئے] ناپسند کرتے ہیں، اور جھوٹی بات بیان کرتی ہیں اِن کی زبانیں [جو کہتی ہیں] کہ اِن کے لئے بھلائی ہے، بے شک اِن کے لئے دوزخ کی آگ ہے، اور انہیں ضرور اُس میں پہنچایا جائے گا۔"

ان آیات کریمہ میں بیان ہؤا ہے کہ اگر خدائے متعال لوگوں کو ان کے ظلم کے بدلے، فوراً پکڑ کر سزا دیتا کوئی بھی باقی نہ رہتا، وہ تو بس انہیں مہلت دیتا ہے تاکہ معینہ وقت تک پہنچ جائیں۔ اسی حال میں، یہی مشرکین جب مشکلات اور مسائل میں گھر جاتے ہیں، تو صرف اور صرف اللہ کو پکارتے ہیں، لیکن مشکل دور ہوتے ہی، دوبارہ شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔

اس گھماؤ (U-Turn) سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن سچائی والے نہیں ہیں اور بحران کے وقت وہ با دل ناخواستہ بھی، حق کا اقرار کرتے ہیں، لیکن امن و سکون کے وقت باطل کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔

معاشرے کو دھوکہ دینے کے لئے باطل کو بنانا سنوارنا

سورہ نحل کی آیت 63 میں ارشاد ربانی ہے:

"تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ؛

اللہ کی قسم ہم نے بہت ساری سابقہ امتوں کے لئے [پیغمبر] بھیجے [لیکن] شیطان شیطان نے ان کے لئے ان کے اعمال سنوار کر [اور خوبصورت بنا کر] پیش کئے جس کے بعد وہی [آج بھی] ان کا سر پرست ہے اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔"

یعنی شیطان نے ان کے اعمال کو ان کی نظروں میں خوبصورت بنا دیا۔ یہ آیت اصل دشمن یعنی 'شیطان اور اس کے پیروکاروں' کا تعارف کراتی ہے۔ حق کے دشمن ہمیشہ باطل کو مزین کرکے اور بنا سنوار کر معاشرے کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اس کی جدید مثالیں دشمنوں کا ابلاغیاتی اور ثقافتی پروپیگنڈہ ہے جو 'بدصورتی' کو خوبصورت اور 'ترقی' بنا کر لوگوں ـ بالخصوص نوجوانوں ـ کے سامنے پیش کرتا ہے۔

دشمنی کی تاریخ کا دہراؤ

سورہ نحل کی آیت 64 میں ارشاد الٰہی ہے:

"وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ؛

اور ہم نے یہ کتاب آپ پر نہین اتاری مگر اس لئے کہ آپ وہ چیز ان کے لئے کھول کر سنا دیں جس میں وہ اختلاف کر رہے ہیں [اور باہم جھگڑ رہے ہیں]، اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت بھی ہے۔"

یعنی قرآن کریم اختلاف اور انتشار کے بیچ، حق حقیقت کو روشن کرنے کے لئے، نازل ہؤا۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن ہمیشہ تفرقہ اور انتشار پھیلا کر حق و حقیقت کو نیست و نابود کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ انبیاء اور قرآن کا مشن دشمنوں کی اسی تقسیم اور تحریف کا مقابلہ کرنا ہے۔

سورہ نحل کی آیات 55 تا 64 دشمنوں کا مکمل خاکہ پیش کرتی ہیں: نعمتوں کے مقابلے میں ناشکری، عقائد میں تحریف، انسانی فطرت سے دشمنی، جھوٹ بولنا، حق و حقیقت کا جزوی اقرار اور مقصد حاصل کرنے کے بعد اس کا دوبارہ انکار، اور آخر میں، باطل کو بنا سنوار کر اور خوبصورت و دلکش بنا کر معاشرے کو دھوکہ دینا۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰہ نے خبردار کیا ہے کہ دشمن ہر وقت گھات لگائے رہتا ہے اور صرف چوکنا اور ہوشیار و بیدار رہنے، آخرت پر یقین رکھنے، نعمتوں کا شکر ادا کرنے اور قرآن سے چمٹے رہنے سے ہی اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha